E Mullah الیکٹرونک مُلا: امرتا پریتم کی یاد میں .comment-link {margin-left:.6em;}

Sunday, December 11, 2005

امرتا پریتم کی یاد میں

2 comments

Homage to Amrita Pritam

انڈیا کی معروف پنجابی شاعرہ امرتا پریتم جی کا انتقال اکتوبر2005،31 کو ہوا۔ میرے تاؤجی ان کے بہت پرستار رہے ہیں۔ اس بات کا اندازہ کئی سال پہلےمجہے اُن کی فائل میں جمع امرتا جی کی تصاویر اور تحاریر دیکھ کر ہوا۔ تبھی میں نے امرتا جی کی کتاب تلا ش کی اور پڑھ ڈالی۔ کتاب کا نام اب یاد نہیں مگر اتنا ضرور ہوا کے میں نے اُن کی ایک تحریر سے متاثر ہو کر ایک نظم
لکھی جو یہاں پیش خدمت ہے۔


قبروں کی راکھی--- یاسین جنجوعہ
(1992)
مرکزی خیال: ایک گیت کا جنم۔ امرتا پریتم


جب میں بہت چھوٹا تھا!۔
تب صحن میں لگے ننھے پودے
تناور درخت نہیں بنے تھے
تبھی ایک ننھی چڑیا
جو دانہ چگنے آتی تھی
ظالم کوے کے ھاتوں مر گئ
میں نے اُس پر پھول سجائے
اور صحن میں لگے ننھے پودوں کے پاس
مٹی میں رکھ دیا
پھر اُس کی ننھی قبر پر
دیر تک بیٹھا رھا
اور بہت رویا
برسوں بعد۔۔۔!۔
جب میرے گھر کے آنگن میں
ننھے پودے تناور درخت بن گئے
میں اُس لڑکی کو نھیں پا سکا تھا
جسے میں نے کبھی اپنا سوچا تھا
وہ لمبی سی گاڑی میں بیٹھ کر
سونے میں ڈھلے تیرتھوں کی یاترا کو چلی گئ
۔۔۔۔ہماری محبت مر چکی تھی
اور اک یاد کے سوا کچھ نہ تھا
میں نے اُس کی یادوں پر پھول چڑھائے
اپنے دل میں محبت کے مرنے کا درد محسوس کیا
اور چیخ کر رویا۔۔۔۔۔۔۔۔!۔
اب یہاں کچھ نہیں
درختوں کے نیچے
صرف ایک قبر نئی ہے
اور میں قبروں کی راکھی پہ بیٹھا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نظم کے بارے میں کچھ واضح کر دوں کہ اس میں استعارے کا استمعال کیا گیا ہے۔ انسان کی بچپن اور جوا نی کی محبتوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ بچپن میں انسان چھوٹے جانداروں سے محبت کرتا ہے اور ان کے کھو جانے پربہت دکھ ہوتا ہے۔ جوان ہونے پر محبتوں کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ نظم میں دوسری قبر غیر مرئی ہے۔ درحقیقت محبوب کھونے والا درخت کے نیچے بیٹھا اپنی محبت کی یادوں کی قبر پہ پھول ڈال رہا ہے۔ ایک بات کی وضاحت کر دوں امرتا جی کی تحریرامیدِ وصال سے لبریز ہے جب کہ میری نظم وصال کی نفی سے متعلق ہے۔

Guardian Unlimited Special reports Amrita Pritam: "The death of Amrita Pritam, in New Delhi at the age of 86, is being mourned on both sides of the India-Pakistan border, for it was she who chronicled so movingly and passionately the pain of partition in 1947. Regarded as the leading 20th-century poet of the Punjabi language, she wrote verses that are sung and recited in cities and villages by many who are illiterate - such is the hypnotic appeal of her poetry. She was, in
many ways, the voice of the Punjabi people, for her poems gave utterance to their anguish. She enshrined the concept of punjabiat, the deep consciousness of being a Punjabi - a child of the land of the five rivers - irrespective of religious or caste affiliation."
If you cannot see the Urdu ارںو text please download the fonts

2 Comments:

  • Assalam o alaykum w.w.!

    The one written by you is fabulous too ... amrita preetam ka tu kiya hee kahna :)

    wassalam

    By Blogger Asma, at Monday, December 12, 2005 11:47:00 PM  

  • That was some great stuff. I loved it; yeah we use to do the same thing we birds. haha!

    I tried to publish a post in Urdu font at my blog put it doesn't come out right, do you know why? And what can I do it make it readable?

    -Vicky

    By Blogger Viks, at Wednesday, December 21, 2005 6:23:00 PM  

Post a Comment

<< Home